Tuesday, June 12, 2012

اپنا گھر ہے نہ گاڑی، چیف جسٹس۔ ارسلان کیس سے علیحدگی کا اعلان


- اسلام آباد(خبرایجنسیاں) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اپنے صاحبزادے ڈاکٹر ارسلان پر بدعنوانی کے الزامات کے مقدمے کی سماعت کرنے والے بنچ سے علیحدہ ہوگئے۔ چیف جسٹس کی بنچ سے علیحدگی کے بعد جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 2 رکنی بنچ نے ڈاکٹر ارسلان اوربحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کو ہفتے کو تحریری بیان داخل کرانے کا حکم دے دیا ، عدالت نے ایف بی آر کے چیئرمین کو ملک ریاض کے اثاثوں اور انہوں نے جتنا ٹیکس جمع کرایا ہے اس کی تفصیلات آئندہ سماعت پر پیش کرنے کی ہدایت کردی جبکہ ڈاکٹر ارسلان کو عدالت میں پیشی سے مستثنیٰ قرار دینے سے متعلق درخواست مسترد کر دی گئی۔جمعرات کو از خود نوٹس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے ایک مرتبہ پھر چیف جسٹس کی بنچ میں شمولیت پر اعتراض کیا‘ جس کے بعد چیف جسٹس نے مختصر فیصلے میں کہا کہ یہ اعتراض بجا ہے اور وہ اس کیس کی سماعت سے الگ ہو رہے ہیں۔ چیف جسٹس کی بنچ سے علیحدگی کے بعدجسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں 2رکنی بنچ نے مقدمے کی سماعت کی ۔ڈاکٹرارسلان معاملے کے اہم کردار ملک ریاض دوسرے دن بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور ان کے وکیل زاہد بخاری نے عدالت کو بتایا کہ وہ علیل ہیں اور ایک ہفتے کے بعد ہی پیش ہو سکتے ہیں۔جس پر عدالت نے زاہد بخاری سے کہا کہ اب یہ معاملہ عدالت میں ہے‘ اس لیے اپنے مؤکل کو مطلع کر دیں کہ وہ اس دوران کسی بھی قسم کا انٹرویو دینے یا معاملے پر رائے زنی سے گریز کریں۔ زاہد بخاری نے عدالت کو بتایا کہ ان کے مؤکل برطانیہ میں زیر علاج ہیں اس لیے ایک ہفتے تک اس مقدمے کی سماعت ملتوی کر دی جائے‘ جس سے عدالت نے اتفاق نہیں کیا۔سماعت کے دوران نجی ٹی وی کے صحافی کامران خان نے بھی اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔ کامران خان نے بتایا کہ ملک ریاض نے انہیں جو دستاویزات دکھائی تھیں، ان کے مطابق سال 2009-10-11ء میں ارسلان افتخار اپنے اہلخانہ کے ساتھ چھٹیاں منانے کے لیے لندن گئے تھے اور وہاں پر جس فلیٹ میں ٹھہرے اس کی ادائیگی ملک ریاض کے داماد کے کریڈٹ کارڈ سے کی گئی اور دستاویزات کے ساتھ ارسلان افتخار کے پاسپورٹ کی فوٹو کاپیاں بھی تھیں۔انہوںنے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے توازن قائم رکھا ہے، سپریم کورٹ کو سلیوٹ کرتا ہوں، عدالتی وقار سے زیادہ کوئی چیزنہیں ہے۔ثناء نیوز کے مطابق مختصر عدالتی حکم میں کہا گیا کہ خلفائے راشدین کے دور میں باپ نے بیٹوں کو نصیحتیں بھی کیں اور سزائیں بھی دیں ۔ ہم اللہ پر یقین اور ایمان رکھتے ہیں، اسلامی احکامات میں اپنے بیٹوں کوبھی سزادینے کی مثال موجودہے، اسلامی تعلیمات میں انصاف کے وقت کسی سے امتیازنہیں برتاگیا۔ اس سے قبل چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مجھے اپنے ججز پر اعتماد ہے،یہ عدلیہ کے 16ستون ہیں۔ یہ معاملہ انتہائی سنجیدہ ہے،ابھی تو بات 30یا 40کروڑ کی ہے، کل یہ بات اربوں کی ہوگی۔ ہم نہیں چاہتے کہ کوئی ادارے کے تشخص کو نقصان پہنچائے۔مجھے خدا کواپنے اعمال کا جواب دینا ہے اولاد کے اعمال کا نہیں۔کرپشن کوئی بھی کرے اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کرپشن کا ہر کیس کھلی عدالت میں سنیں گے۔ارسلان ہویاملک ریاض کسی سے امتیازی سلوک نہیںکیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ 22 سال سے جج ہوں بہت سے ہائی پروفائل کیسز سنے۔اپنا گھر ہے نہ گاڑی‘ مشترکہ خاندانی گھر ہے۔ اگر آج 9 مارچ جیسا واقعہ ہو تو میرے پاس کچھ نہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا لوگ سمجھتے ہیں کہ ہر آدمی کی قیمت ہوتی ہے‘ جو چاہے خرید لے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ جو گولی لگنی ہے وہ لگ کر رہے گی ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ارسلان کے کاروبار کے بارے میں زیادہ علم نہیںہے ۔ بعدازاں کیس کی سماعت پیرتک ملتوی کردی گئی ۔
SOURCE LINKS:





No comments:

Post a Comment